احساس
لفظ
کچھ ہی سہی
اک علامت ہے تفہیم کی
فہم
حس تحفظ کا اک آئینہ
اور گل کاریٔ عکس کے واسطے
روح کافی نہیں
جسم بھی چاہیے
پیکریت وہی ہے جو باندھے نظر
جن کی ویرانیاں منتظر ہیں مری
روشنی ایک پردہ ہے جن کے لئے
خون کی چپچپاہٹ لئے
ان زمینوں تلک میں نہ پہنچا اگر
سب کی سب رائیگاں جائیں گی
کس قدر
تہمتیں میرے سر آئیں گی