اک مکالمہ

آہ کو پوچھا
کہا
میری جناب
عشق کو پوچھا
کہا


میرے حضور
حسن کو پوچھا
کہا
پرتو مرا
بے اعتنا و بے نیاز
رنگ اندھوں کے لئے
سربستہ راز
میں نے پوچھا
کیا ہے پھر سوز جگر
کہہ دیا
تاثیر کل آئینہ گر
جب کریدا
خلوت و جلوت کے کیا معنی ہوئے
روشنی پھوٹی کہ جلوت
میری بزم کائنات
بابت خلوت
نشان طور دیکھ
رنگ‌ و بے رنگی کی میں نے
سر جھکا کر بات کی
ایک موسم گونج اٹھا
دو راستے
میں نے پھر پوچھا
کہ اچھا تا کجا
ایک کوندا سا لپک اٹھا کہ بس
نادان تو اتنا نہ سمجھا
مجھ تلک
میں نے جھلا کر
پٹخنا چاہا کشکول ملال
لرزہ اک گویا ہوا
معلوم ہے مجھ کو ترا اگلا سوال
طیش مت کھا
ذات میری نور ہے
میں لبالب تجھ میں ہوں
گر مجھ سے تو معمور ہے