تسلی
راستے کے پیچ و خم دشمن سہی
فاصلے ہیں منحصر رفتار پر
کان مت دھرنا دل آزردہ کی سسکار پر
کیا ہوا چلو جو چھلنی ہیں ابھی
ہونٹ کیوں ہوں تشنگی کے اشتہار
کیا ہوا سوچے ہوئے منظر جو ہاتھ آئے نہیں
آنکھ سا دریا بنے کیوں ریگ زار
ناز ہو تحصیل کا یا نارسائی کا ملال
ہر تگ و دو ہے قوی کا اشتعال
سوچ سکتا ہے کھلے دل سے تو بس اتنا ہی سوچ
شیوۂ حرمان و یاس اچھا نہیں
زندگی کا یوں لباس اچھا نہیں
ٹوٹ کر سالم بنے رہنا اگرچہ ہے فریب
معترض ہوتا نہیں کوئی مگر الحاق پر
بعض تخلیقی عمل کے ماسوا
کون سا الزام آتا ہے کسی تریاق پر