امتیاز

نور کی بے اعتنائی
جس طرح تاریکیاں
جس طرح بنیاد شر ہے
خیر کی خاموشیاں
چھاؤں جیسے
دھوپ کی ہے بے بسی
ہر سزا کا جس طرح رد عمل ہے سرکشی
جیسے اک ڈالی کے ہیں دو پھول
خوف و اعتقاد
خود فریبی کی جڑوں کو گھاؤ پہنچاتا ہے
جیسے اعتماد
جس طرح پرچھائیں ٹھہرے جذب کی کم مائیگی
دشمنی کا تخم جیسے دوستی
حبس
جیسے ہے بگولوں کا خدا
جس طرح پرواز کا ہے خبط مرہون ہوا
جس طرح خالق تصور کا دماغ
جیسے سورج کی توانائی چراغ
ہاں
کچھ ایسا ہی تعلق
تیرے میرے درمیاں ہے
خواب سا اک رشتۂ سود و زیاں ہے