تضاد شام
مجھے شام سے پہلے
آفس کے بلڈاگ کو
فائلیں سونپنی تھیں
مرے ساتھیوں نے
جو خاکے رچے تھے
اپاہج کی صورت
مرے سامنے تھے
مری افسری
میرے کیبن میں
بھوکے ببر شیر سی ہو رہی تھی
مرے ماتحت اپنے چہرے بنائے ہوئے
بے زباں ہو رہے تھے
اپنے تصور کی درگت پہ سر پیٹتا تھا
اچانک وہ لڑکی
جو پچھلے مہینے نکالی گئی تھی
ہوا پر تھرکتی ہوئی
فون پر گنگنائی
مری افسری کا ببر شیر
یک لخت پانی ہوا
درندے سے انساں کا ثانی ہوا
وہ بے کار لڑکی
اداسی میں ڈوبی ہوئی چاندنی میں
بہلنے کی خاطر
محبت بھرے چند پل چاہتی تھی
اسی شام مجھ سے
ترنم میں گوندھی ہوئی
اک غزل چاہتی تھی