Ram Parshad Sharda

رام پرشاد شاردا

  • 1914

رام پرشاد شاردا کی غزل

    بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے

    بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے اور نسریں لالہ و سرو و سمن شرما گئے کوئی آگے ہے کہ پیچھے اس سے کچھ مطلب نہیں غور اس پر کیجیے کہ ہم کہاں تک آ گئے گل کے انساں اور تھے اور آج کے کچھ اور ہیں آج کے انساں کو دیکھو مہر و مہ پر چھا گئے جب بھی آئی کوئی مشکل ہم ہوئے سینہ سپر اور ہوں ...

    مزید پڑھیے

    بلواتا ہے عقب سے مرا قافلہ مجھے

    بلواتا ہے عقب سے مرا قافلہ مجھے کیسا ملا ہے تند وری کا صلہ مجھے فرقت کے دن گزارنا یوں تو محال تھا اک تیری یاد نے ہی دیا حوصلہ مجھے یہ اور بات ہے کہ میرا ظرف تنگ تھا اپنی طرف سے تو نے تو سب کچھ دیا مجھے جب گردش فلک سے نہ کچھ بات بن سکی دنیائے رنگ و بو کا بنایا خدا مجھے گو فرش پر ...

    مزید پڑھیے

    غم و رنج و الم کے درمیاں رہنا ہی پڑتا ہے

    غم و رنج و الم کے درمیاں رہنا ہی پڑتا ہے جہاں رکھے خدا اے دل وہاں رہنا ہی پڑتا ہے بہار جاں فزا ہو یا خزاں رہنا ہی پڑتا ہے بہ ہر صورت بہ زیر آسماں رہنا ہی پڑتا ہے پریشاں حالیوں میں شادماں تو رہ نہیں سکتے پریشاں حالیوں میں شادماں رہنا ہی پڑتا ہے طلوع زندگانی سے غروب زندگانی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے تو تار تار گریباں نہ ہو سکا

    مجھ سے تو تار تار گریباں نہ ہو سکا اے عشق تجھ پہ کوئی بھی احساں نہ ہو سکا اک میں کہ تیری یاد نہ دل سے بھلا سکا اک تو کہ میرے حال کا پرساں نہ ہو سکا وہ آہ کیا جو قہر الٰہی نہ بن سکی وہ اشک کیا جو نوح کا طوفاں نہ ہو سکا کافر بھی میکدے میں مسلمان ہو گئے لیکن حرم میں شیخ مسلماں نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے ہیں تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم

    بیٹھے ہیں تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم اے دوست باز آئے تری دوستی سے ہم رنج و ملال یاس و الم کرب و اضطراب کیا کیا نہ لے کے آئے ہیں تیری گلی سے ہم یہ اور بات ہے کہ محبت ہے ہم سے دور رکھتے نہیں ہیں دل میں کدورت کسی سے ہم بل پیچ پے بہ پے تو شکن موڑ موڑ پر گزرے ہیں موت ہی کی طرح زندگی سے ...

    مزید پڑھیے

    گیسوئے دوراں کو کم کم جتنا سلجھاتا ہوں میں

    گیسوئے دوراں کو کم کم جتنا سلجھاتا ہوں میں کیا قیامت ہے کہ اتنا ہی الجھ جاتا ہوں میں نبض کی رفتار خود کہہ دے گی احوال مریض اے طبیب وقت کچھ کہنے سے گھبراتا ہوں میں فیصلہ کن بات ہو جاتی ہے اکثر اس گھڑی زندگی کے روبرو جب موت کو پاتا ہوں میں ان کے آنے کا تصور ان کے جانے کا خیال ہر دو ...

    مزید پڑھیے

    پوچھ لیتے جو مدعا ہم سے

    پوچھ لیتے جو مدعا ہم سے پھر نہ کرتے کوئی گلہ ہم سے تھا زمانہ تو بد گماں لیکن آپ بھی ہو گئے خفا ہم سے ہے خدا حافظ اب تو کشتی کا دور ہو دور نا خدا ہم سے ہم کو تو زندگی نے مار لیا کیا کہے گی بھلا قضا ہم سے آپ کا ہم سے واسطہ تو یہ واسطہ اور آپ کا ہم سے دیکھ کر ان کو آنکھ بھر آئی اس سے ...

    مزید پڑھیے

    جو بہر وطن مرنے کو تیار نہیں ہے

    جو بہر وطن مرنے کو تیار نہیں ہے جینے کا کسی طور وہ حق دار نہیں ہے کیا فائدہ اس شکوہ و فریاد و فغاں سے سننے کو جسے کوئی بھی تیار نہیں ہے واعظ سے کہو جا کے کرے وعظ کہیں اور کوئی بھی تو اس بزم میں ہشیار نہیں ہے کرنی ہے بپا پھر مجھے اک شورش دوراں اے دوستو نالہ مرا بیکار نہیں ہے جس جا ...

    مزید پڑھیے

    اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں

    اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں بھولے افسانے یاد آئے ہیں ہم نے دامن کو تار تار کیا موسم گل نے گل کھلائے ہیں اکثر اوقات روغنی کے لئے ہم نے دل کے دئے جلائے ہیں رنج بخشے ہیں ایسے اپنوں نے ہم کو بیگانے یاد آئے ہیں چند روزہ حیات کی خاطر زندگی بھر فریب کھائے ہیں مے کشو ایک جام ...

    مزید پڑھیے