بیٹھے ہیں تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم
بیٹھے ہیں تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم
اے دوست باز آئے تری دوستی سے ہم
رنج و ملال یاس و الم کرب و اضطراب
کیا کیا نہ لے کے آئے ہیں تیری گلی سے ہم
یہ اور بات ہے کہ محبت ہے ہم سے دور
رکھتے نہیں ہیں دل میں کدورت کسی سے ہم
بل پیچ پے بہ پے تو شکن موڑ موڑ پر
گزرے ہیں موت ہی کی طرح زندگی سے ہم
سننے کو سن تو لیتے ہیں ہم ہر کسی کی بات
کہتے نہیں ہیں بات کسی کی کسی سے ہم
انداز اور بھی ہیں ملاقات کے مگر
ملتے ہیں آدمی کی طرح آدمی سے ہم
بسملؔ ہماری سمت بھی اک جام تو بڑھے
بیٹھے ہیں تیری بزم میں کس بیکسی سے ہم