بلواتا ہے عقب سے مرا قافلہ مجھے
بلواتا ہے عقب سے مرا قافلہ مجھے
کیسا ملا ہے تند وری کا صلہ مجھے
فرقت کے دن گزارنا یوں تو محال تھا
اک تیری یاد نے ہی دیا حوصلہ مجھے
یہ اور بات ہے کہ میرا ظرف تنگ تھا
اپنی طرف سے تو نے تو سب کچھ دیا مجھے
جب گردش فلک سے نہ کچھ بات بن سکی
دنیائے رنگ و بو کا بنایا خدا مجھے
گو فرش پر ہوں پھر بھی تصور میں عرش ہے
دیکھا ترا خیال کہاں لے گیا مجھے
تیرے کرم کا ذرہ نوازی کا شکریہ
دنیا بھی کہہ رہی ہے قتیل جفا مجھے
بسملؔ کی آرزوئیں تو پامال کر چکے
اب دے رہے ہو حوصلۂ مدعا مجھے