جو بہر وطن مرنے کو تیار نہیں ہے
جو بہر وطن مرنے کو تیار نہیں ہے
جینے کا کسی طور وہ حق دار نہیں ہے
کیا فائدہ اس شکوہ و فریاد و فغاں سے
سننے کو جسے کوئی بھی تیار نہیں ہے
واعظ سے کہو جا کے کرے وعظ کہیں اور
کوئی بھی تو اس بزم میں ہشیار نہیں ہے
کرنی ہے بپا پھر مجھے اک شورش دوراں
اے دوستو نالہ مرا بیکار نہیں ہے
جس جا پہ بسیں غیرت ملی کے محافظ
جنت ہے وہ زندان کی دیوار نہیں ہے
بھڑکیں گے ابھی اور بھی جذبات کے شعلے
آتش یہ تہ خاک ہے بیدار نہیں ہے
بسملؔ نے اشاروں میں کہی دل کی کہانی
بھرپور جوانی کی یہ گفتار نہیں ہے