بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے
بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے اور نسریں لالہ و سرو و سمن شرما گئے کوئی آگے ہے کہ پیچھے اس سے کچھ مطلب نہیں غور اس پر کیجیے کہ ہم کہاں تک آ گئے گل کے انساں اور تھے اور آج کے کچھ اور ہیں آج کے انساں کو دیکھو مہر و مہ پر چھا گئے جب بھی آئی کوئی مشکل ہم ہوئے سینہ سپر اور ہوں ...