بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے

بن سنور کر جب کبھی وہ گلستاں میں آ گئے
اور نسریں لالہ و سرو و سمن شرما گئے


کوئی آگے ہے کہ پیچھے اس سے کچھ مطلب نہیں
غور اس پر کیجیے کہ ہم کہاں تک آ گئے


گل کے انساں اور تھے اور آج کے کچھ اور ہیں
آج کے انساں کو دیکھو مہر و مہ پر چھا گئے


جب بھی آئی کوئی مشکل ہم ہوئے سینہ سپر
اور ہوں گے مشکلوں میں پھنس کے جو گھبرا گئے


داستان عشق میں آیا تھا اک ایسا مقام
بات میری ہو رہی تھی اور وہ شرما گئے


دوستو یاد الٰہی ایسی منزل ہے جہاں
پا گئے وہ کھو گئے جو کھو گئے وہ پا گئے


جا کے بسملؔ منزل جاناں میں خود رفتہ نہ ہو
یہ وہ منزل ہے جہاں پائے خرد تھرا گئے