گیسوئے دوراں کو کم کم جتنا سلجھاتا ہوں میں
گیسوئے دوراں کو کم کم جتنا سلجھاتا ہوں میں
کیا قیامت ہے کہ اتنا ہی الجھ جاتا ہوں میں
نبض کی رفتار خود کہہ دے گی احوال مریض
اے طبیب وقت کچھ کہنے سے گھبراتا ہوں میں
فیصلہ کن بات ہو جاتی ہے اکثر اس گھڑی
زندگی کے روبرو جب موت کو پاتا ہوں میں
ان کے آنے کا تصور ان کے جانے کا خیال
ہر دو عالم کے تصور سے لرز جاتا ہوں میں
سرد مہریٔ زمانہ کا ہوا ہے جب اثر
اپنی شریانوں میں خون گرم دوڑاتا ہوں میں
منفعل ہونے پہ بھی میری خطاؤں کا شمار
کیسا دستور عدالت اس جگہ پاتا ہوں میں
ہائے بسمل تو نہ سمجھا مقتضائے وقت کو
نا سمجھ لے اپنا قصہ پھر سے دہراتا ہوں میں