اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں

اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں
بھولے افسانے یاد آئے ہیں


ہم نے دامن کو تار تار کیا
موسم گل نے گل کھلائے ہیں


اکثر اوقات روغنی کے لئے
ہم نے دل کے دئے جلائے ہیں


رنج بخشے ہیں ایسے اپنوں نے
ہم کو بیگانے یاد آئے ہیں


چند روزہ حیات کی خاطر
زندگی بھر فریب کھائے ہیں


مے کشو ایک جام تعظیماً
حضرت واعظ آج آئے ہیں


وقت ہی کا تو پھیر ہے بسملؔ
کل جو اپنے تھے اب پرائے ہیں