مجھ سے تو تار تار گریباں نہ ہو سکا
مجھ سے تو تار تار گریباں نہ ہو سکا
اے عشق تجھ پہ کوئی بھی احساں نہ ہو سکا
اک میں کہ تیری یاد نہ دل سے بھلا سکا
اک تو کہ میرے حال کا پرساں نہ ہو سکا
وہ آہ کیا جو قہر الٰہی نہ بن سکی
وہ اشک کیا جو نوح کا طوفاں نہ ہو سکا
کافر بھی میکدے میں مسلمان ہو گئے
لیکن حرم میں شیخ مسلماں نہ ہو سکا
تھا جن کو ناز اپنی مسیحائی پر بہت
ان سے بھی میرے درد کا درماں نہ ہو سکا
کہہ دو تو دل کو چیر کے ثابت کروں ابھی
تیرے بغیر کوئی بھی مہماں نہ ہو سکا
یہ بات سچ ہے الفت سرشار کے بغیر
بسملؔ میں انجمن میں غزل خواں نہ ہو سکا