نہیں جو دولت زاد سفر تو کیا غم ہے

نہیں جو دولت زاد سفر تو کیا غم ہے
یہی متاع بہت ہے کہ عزم محکم ہے


قدم قدم پہ حوادث قدم قدم خطرے
بتا رہے ہیں کہ منزل کا فاصلہ کم ہے


یہ میکدے کے ہیں بانی انہیں شراب نہ دو
حضور جرم بڑا ہے سزا بہت کم ہے


ہماری بات ہی کیا تھی رہی رہی نہ رہی
تمہاری بات تو رکھ لی ہے کیا یہ کچھ کم ہے


ہیں اب بھی ساغر و مینا کے تذکرے غالبؔ
کہ اب نہ ہاتھ میں جنبش نہ آنکھ میں دم ہے


رہ ادب میں جلے تو ہیں کچھ چراغ نئے
مگر یہ کون بتائے کہ روشنی کم ہے


یہ کس مقام پہ ہم آ گئے ہیں اے رحمتؔ
نہ زندگی کی خوشی ہے نہ موت کا غم ہے