Rafiullah Mian

رفیع اللہ میاں

رفیع اللہ میاں کی نظم

    غلطی

    اوپر سے بہہ کر آنے والی لہریں میرے مرکز کو بھینچ رہی ہیں گلابی رنگ جل کر سیاہ ہو رہا ہے آنکھ کے آئینے میں امید کی جھلک ہمیشہ ابھرتی رہتی ہے وہ وقت آ چکا آس پاس چلتے پھرتے وجود طاقت ور لہروں میں ڈھل گئے ہیں ذمہ داری دی جاتی ہے غیر ذمہ داری سے اور کچھ لوگ قہقہے لگانے پر خود کو مامور ...

    مزید پڑھیے

    سننا چاہو تو

    سنو تاکہ ان سنی دوسرے کو تکلیف نہ دے جو تمہارے لفظ ہیں انہیں قبول کر لو جیسے لفظ ایک بہتے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں ویسے یہ معروض کی سچائیوں کے گرد مہین دھاگے لپیٹ دیتے ہیں ان کہی سے نکلتے ہیں تو گہرائی میں ان سنی کا دکھ ہمکتا ہے خواب پر صحراؤں کا تسلط ہے شور مچاتے ہیں سونے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ڈور سانسوں کی

    دروازے سے ٹکرا کر اندر آتی ہواؤں میں زندگی تھی اس سے انکار کی قیمت کسی نے نہیں پوچھی بس پھیپھڑوں نے خود کو تقسیم کر دیا میں سانس لینا چاہتا ہوں کھلی فضا میں لیکن بھر چکا ہے زہر میری دعا میں وہ سب مل کر دھکیلتے ہیں مجھے غاروں میں جہاں میرا پتھرایا ہوا بدن میرا خون مانگتا ہے جس میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک لڑکی کی موت

    اس سے قبل موت تمہیں ایک قطرہ بنا دے دوسروں کی پلکوں پر اٹک سکنے کی قوت سے لبریز اگر تم پڑھنا چاہو ان شبدوں کو جو ہوا پر رکھے جاتے ہیں کہ ان کی خوشبو قید کی ذلت سے روشناس نہ ہو ان میں اشارہ ہے کہساروں پر بلند ہونے کا جب چھوٹے چھوٹے پتھر لڑھکانے کی کوشش کرتے ہیں نیچے اور تم ان کے سروں ...

    مزید پڑھیے

    نتیجہ

    آخر کار ایک دن مجھے خوشبو اور رنگوں سے بھرے تمہارے پہلو سے اٹھ کر وہاں جانا پڑ جائے گا جہاں بلند اور دشوار پہاڑوں کی گود میں وہ سب جو مٹی کی مہک والے بستر چھوڑ کر کانٹوں کی طرح اگتے ہیں اور روندنے والوں کو زخمی کر دیتے ہیں ہر لمحے ایک انتظار کی کیفیت میں رہتے ہیں تب ممکن ہے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    نئی امید

    کبھی اپنی سخت گرفت پر نگاہ کر کے دیکھو فانوس کی طرح چمکتی اوقیانوس کی طرح لہریں مارتی زندگیاں لے کر خالی چارپائیاں اور خالی ہجوم لوٹا دیتی ہو تمہارے لیے جفتیاں کر کے محنت سے چارہ تیار کرتے ہیں اور کوئی شکایت نہیں کرتے ہمارے مضبوط ہاتھ تمہاری مٹی کھودتے کانپ جاتے ہیں تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    درد کی مالا

    ہمارے درمیاں اے دوست یہ جو استعارہ پھول کا مہکا رہا بندھن میں ہم کو باندھ کر کھلتا رہا اک عمر میرا دل بہلتا ہی نہیں اب ان کی باتوں سے کبھی تم خوشبوؤں کا ذکر کرتے ہو تو میری ناک میں تیزاب کی بو پھیل جاتی ہے تمہاری شاعری بار گراں اب ہے سماعت پر کہ زرخیزی گلوں سے اس میں قائم ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    گڑھوں والی لڑکی

    جب وہ بولتی ہے جب چپ ہو جاتی ہے اور جب ہنستی ہے اور روتی ہے جب اس کے رخساروں میں ہونٹوں کے کناروں پر ابروؤں کے پاس چاہ ذقن کی طرح ڈمپل پڑتے ہیں اور مزید ڈمپل پڑتے ہیں جب وہ قہقہہ لگاتی ہے اور جب گانے لگتی ہے خوش ہوتے وقت بھی جس طرح دکھ میں آنسو بہاتے ہوئے جو گال کے گڑھے میں جا گرتے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ جیسا

    دھند بولتی ہے ایک طویل بے زار کن خاموشی میں خاموشی جو نہیں دیکھ سکتی اس پار جہاں کچھ ہے اس دھند کے رشتے سے ہر کوئی وہاں جانا چاہتا ہے کوئی لڑکی یا اس کے رشتے سے کوئی اور جو ہاتھ تھام کر لے جائے دھند کے لامتناہی سلسلوں کے پار وہ دھند جس کے پیچھے خون کا دریا بہتا ہے وہ جس کے پیچھے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا شکریہ

    وہ لمحے جب وجود میں بارود بھر جاتا ہے سوچ کہتی ہے کہ ہر شے فنا ہو سکتی ہے محض زبان سے پھسلے لفظ اندر کے خالی پن کو مسلط کر دیں ایسا خالی پن قبول کرنے میں دشواری ہوتی ہے تمہارا شکریہ درانتی کی نوک دیر تک کچی زمین کو کریدتی رہی اور اس میں سے خون نہ نکلا تہوں کے نیچے فصلیں اگتی رہی ہوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2