غلط فہمی
انصاف کے ہتھوڑے میں ذرا بھی جان ہوتی لوگوں کے منہ پر برس جاتا ہوا میں معلق بے بسی محسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی لکڑی کی میز پر پٹکتا ہے
انصاف کے ہتھوڑے میں ذرا بھی جان ہوتی لوگوں کے منہ پر برس جاتا ہوا میں معلق بے بسی محسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی لکڑی کی میز پر پٹکتا ہے
ستر سال تمہاری پسلی سے خود کو باندھ کر چلی ہوں کبھی بری ہوں کبھی بھلی ہوں میرے محبوب میں تمہاری نگاہوں کا سہارا لیتے لیتے تھک چکی ہوں تمہاری سانسوں کی ڈور میرے ماس میں رہ گزر بنا کر ہڈیوں کو سرد لہر اوڑھائے قصے سناتے نہیں تھکتی میری پلکیں چلمن بننے سے خوف کھاتی ہیں ایک آواز کہتی ...
درد سے بھرا گلاس ہونٹوں سے لگا کر پیتے پیتے میں نے اس کی شرابی آنکھوں میں جھانکا اور میرا جسم پیاس سے بھر گیا
تمہارے دل کی سنگ لاخ وادی میں دشوار گزار اور پر پیچ راستوں کے بیچ کہیں کسی مقام پر ایک شکستہ حال جھونپڑی گرم ہوا کے تھپیڑوں سے اپنی زنگ آلود میخوں کے بل پر ویسے ہی پھڑپھڑا رہی ہے جیسے دیے کی جاں بہ لب لو اندھیروں کو شکست دینے کے بعد بجھنے لگتی ہے جن لہروں اور ان سے جنم لینے والی ...
بہتی آنکھوں نے ہماری شناخت مٹا دی ہے چہرے سے عاری جسم سڑکوں پر لڑھکتا ہے نفرت کرتا ہے پیار کرتا ہے کوئی بھی جذبہ اسے اس کی شناخت نہیں لوٹاتا کانٹے مذاق اڑاتے ہیں ڈانس کرتے ہیں کیا انہیں آنکھوں کے ان سوراخوں میں اتارا جا سکتا ہے جن میں لاوا بہہ کر آتا ہے اور ہر اس راستے کو جلا دیتا ...