گڑھوں والی لڑکی
جب وہ بولتی ہے
جب چپ ہو جاتی ہے
اور جب ہنستی ہے
اور روتی ہے جب
اس کے رخساروں میں
ہونٹوں کے کناروں پر
ابروؤں کے پاس
چاہ ذقن کی طرح
ڈمپل پڑتے ہیں
اور مزید ڈمپل پڑتے ہیں
جب وہ قہقہہ لگاتی ہے
اور جب گانے لگتی ہے
خوش ہوتے وقت بھی
جس طرح دکھ میں
آنسو بہاتے ہوئے
جو گال کے گڑھے میں جا گرتے ہیں
غصے میں
چہرے پر بھنور بن جاتے ہیں
پرندے جس پر چکراتے ہیں
اداسی میں قدیم کھنڈر
بلیاں جہاں چیختی ہیں
اور کرب میں بھی
جب یہ اس نرم ماس کو ڈھانپتا ہے
تو ایک بلیک ہول
اس کے پورے وجود کو
نگلنے لگتا ہے