درد کی مالا
ہمارے درمیاں اے دوست
یہ جو استعارہ پھول کا مہکا رہا
بندھن میں ہم کو باندھ کر
کھلتا رہا اک عمر
میرا دل
بہلتا ہی نہیں اب ان کی باتوں سے
کبھی تم خوشبوؤں کا ذکر کرتے ہو
تو میری ناک میں تیزاب کی بو پھیل جاتی ہے
تمہاری شاعری بار گراں اب ہے سماعت پر
کہ زرخیزی گلوں سے اس میں قائم ہے
وہ گل
کہ جن کو میں دیکھوں کبھی
زیب گلو ان کے
جو آئے ہیں مسل کر پھول ہی جیسا حسیں پیکر
بہت سے لوگ قاتل کے
گلے میں پھول کی مالائیں لٹکا کر
اسے اشکوں کا نذرانہ بھی دیتے ہیں
تو میں منصف کا چہرہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں
جنونی بھیڑ میں جا کر
سمٹ کر پھیل جاتا ہوں
اور اپنے درد کو سنسان کرتا ہوں