سننا چاہو تو
سنو
تاکہ ان سنی دوسرے کو تکلیف نہ دے
جو تمہارے لفظ ہیں
انہیں قبول کر لو
جیسے
لفظ ایک بہتے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں
ویسے
یہ معروض کی سچائیوں کے گرد
مہین دھاگے لپیٹ دیتے ہیں
ان کہی سے نکلتے ہیں تو
گہرائی میں ان سنی کا دکھ ہمکتا ہے
خواب پر صحراؤں کا تسلط ہے
شور مچاتے ہیں
سونے نہیں دیتے
خواب ان دیکھے مناظر سے آلودہ ہیں
دیکھنا چاہتے ہیں
لیکن شور بہت ہے
خواب میں بھی
ان سنی کا دکھ نہیں جاتا
ان سنی کا بوجھ لے کر
قافلے گزر جاتے ہیں
شہروں سے
دیہات سے
اور ان کے بیچ خلا سے بھی
کبھی کبھی
مجھ جیسا
ان سنی کا بوجھ لے کر
اس کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتا ہے