ڈور سانسوں کی

دروازے سے ٹکرا کر
اندر آتی ہواؤں میں زندگی تھی
اس سے انکار کی قیمت کسی نے نہیں پوچھی
بس پھیپھڑوں نے خود کو تقسیم کر دیا
میں سانس لینا چاہتا ہوں
کھلی فضا میں
لیکن بھر چکا ہے زہر
میری دعا میں
وہ سب مل کر دھکیلتے ہیں مجھے
غاروں میں
جہاں میرا پتھرایا ہوا بدن
میرا خون مانگتا ہے
جس میں تیرتے ہیں گھٹن کے بلبلے
پھٹتے ہیں میرے جذبوں کی طرح
آواز کسی ڈرون کی
جو دھیمی اور مہلک ہے
اچھال دیتی ہے
نمودار ہونے والی لکیروں کی طرف
جن کی اطراف میں گھٹن
پاگل پن میں ہر شے تقسیم کرتی ہے
تقسیم کرتی ہے پھیپھڑے
جنہیں اپنی سانسوں کی ڈور سے
باندھنا چاہتا ہوں