قمر سرور کی غزل

    تیرے نام ہیں روشن راتیں اپنے نام اندھیرے ہیں

    تیرے نام ہیں روشن راتیں اپنے نام اندھیرے ہیں ساری خوشیاں اب تیری ہیں جو غم ہیں وہ میرے ہیں جھوٹ موٹ کے ان خوابوں سے آنکھوں کو برباد نہ کر خواب کو خواب ہی رہنے دے بس میرے ہیں نہ تیرے ہیں مکر و ریا کی یہ دنیا بھی دیکھو بین بجاتی ہے ان راہوں پہ تم مت جانا جن راہوں پہ سپیرے ہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    خوشی ہر دم نہیں رہتی مسلسل غم نہیں ہوتا

    خوشی ہر دم نہیں رہتی مسلسل غم نہیں ہوتا محبت میں ہمیشہ ایک سا موسم نہیں ہوتا سلیقے سے بچھڑتے ہم پشیمانی نہیں ہوتی تمہیں صدمہ نہیں ہوتا ہمیں بھی غم نہیں ہوتا بچھڑ کر بھی بہت نزدیک رہتا ہے ترا سایہ وہ مجھ سے دور جاتا ہے مگر مدھم نہیں ہوتا شکستہ پاؤں والے بھی تو منزل تک پہنچتے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کھویا تھا کیا پایا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں

    کیا کھویا تھا کیا پایا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں کس سے بچھڑے کون ملا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں یاد ہے بس اتنا ہی مجھ کو میں نے پیڑ پہ لکھا تھا لیکن کس کا نام لکھا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں ہلکا ہلکا یاد ہے اتنا کچھ نہ کچھ تو ٹوٹا تھا دل تھا یا پھر عہد وفا تھا اب تو یہ بھی یاد ...

    مزید پڑھیے

    سارے دکھ بھول گئے سارے ستم بھول گئے

    سارے دکھ بھول گئے سارے ستم بھول گئے تم کو دیکھا تو سبھی رنج و الم بھول گئے ان کو وہ لکھ دیا جو ہم کو نہیں لکھنا تھا خط میں جو کچھ ہمیں کرنا تھا رقم بھول گئے آپ سے ہم نے نہ ملنے کی قسم کھائی تھی جانے کیا ہو گیا ہم اپنی قسم بھول گئے مل گیا نقش قدم تیرا جبیں کو اپنی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے تجھے کیا معلوم

    اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے تجھے کیا معلوم زندگی عکس بدلتی ہے تجھے کیا معلوم دن تو سورج ہے کسی طرح سے ڈھل جاتا ہے رات آنکھوں میں ٹھہرتی ہے تجھے کیا معلوم میرے چہرے پہ لکھے حرف تو پڑھ لیتا ہے جو میرے دل پہ گزرتی ہے تجھے کیا معلوم یہ ترے نام سے منسوب بھی ہو سکتی ہے سانس رہ رہ کے ...

    مزید پڑھیے

    جم گئی آنکھ میں تعبیر پگھلتی ہی نہیں

    جم گئی آنکھ میں تعبیر پگھلتی ہی نہیں چاندنی رات مرے خواب میں ڈھلتی ہی نہیں پہلے یوں تھا مری آنکھیں نہیں پتھرائی تھیں اب تو آنسو کی کوئی بوند نکلتی ہی نہیں خالی آنکھوں سے تکا کرتی ہوں آنگن اپنا دوپہر ہے جو تری یاد کی ڈھلتی ہی نہیں جانے کس خوف سے سہمی سی ہے بچی میری اب کھلونے ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں نگر روشن تھا

    ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں نگر روشن تھا ہم جسے چھوڑ کے آئے تھے وہ گھر روشن تھا روشنی میں بھی اندھیروں کا گماں ہوتا ہے تم مرے ساتھ تھے جب تک تو سفر روشن تھا وہ مجھے چھوڑ گیا پر اسے معلوم نہ تھا دور تک عزم سفر ساتھ تھا در روشن تھا لوگ شاید اسے آثار قدیمہ سمجھیں اس اداسی پہ نہ جا ...

    مزید پڑھیے

    خواہشیں ہیں بہت آرزوئیں بہت سوچتی ہوں کہ تم بن یہ گھر کیا کروں

    خواہشیں ہیں بہت آرزوئیں بہت سوچتی ہوں کہ تم بن یہ گھر کیا کروں راہ چلتے ہوئے تھک گئے ہیں قدم ختم ہوتا نہیں یہ سفر کیا کروں کوئی سورج مرے ساتھ چلتا نہیں کوئی سایہ بھی مجھ سے الجھتا نہیں چاند بھی اب نکلتا نہیں ہے یہاں سونا سونا ہے دل کا نگر کیا کروں میں ترا دکھ بنوں میں ترا غم ...

    مزید پڑھیے

    آج کی شام ٹھہر جاؤ غزل ہونے تک

    آج کی شام ٹھہر جاؤ غزل ہونے تک التجا ہے کہ نہ گھر جاؤ غزل ہونے تک تم گل رعنا ہو خوش رنگ ہو خوش بخت بھی ہو خوشبو بن بن کے بکھر جاؤ غزل ہونے تک سوئے احساس کی لہروں میں مچا دو ہلچل آنکھ سے دل میں اتر جاؤ غزل ہونے تک پھر خدا جانے یہ آئینہ رہے یا نہ رہے آج موقع ہے سنور جاؤ غزل ہونے ...

    مزید پڑھیے

    اجڑا لگتا ہے غریبوں کا نگر شام کے بعد

    اجڑا لگتا ہے غریبوں کا نگر شام کے بعد دیکھ لیتے ہیں وہ امید سحر شام کے بعد دھوپ رسوائی کا سامان لیے پھرتی ہے اس کو آنا تھا تو آ جاتا مگر شام کے بعد صبح ہوتے ہی وہ مرجھا گیا توبہ توبہ کھل گیا تھا جو محبت کا ثمر شام کے بعد وہ گلستاں میں رہے یا کسی ویرانے میں ڈھونڈ لیتا ہے اسے ذوق ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2