آج کی شام ٹھہر جاؤ غزل ہونے تک

آج کی شام ٹھہر جاؤ غزل ہونے تک
التجا ہے کہ نہ گھر جاؤ غزل ہونے تک


تم گل رعنا ہو خوش رنگ ہو خوش بخت بھی ہو
خوشبو بن بن کے بکھر جاؤ غزل ہونے تک


سوئے احساس کی لہروں میں مچا دو ہلچل
آنکھ سے دل میں اتر جاؤ غزل ہونے تک


پھر خدا جانے یہ آئینہ رہے یا نہ رہے
آج موقع ہے سنور جاؤ غزل ہونے تک


اپنے ہر خواب کو کاغذ پہ مکمل کر لوں
میری آنکھوں میں ٹھہر جاؤ غزل ہونے تک


کس طرح تم کو سرورؔ آج قلم بند کرے
مجھ کو بتلا کے ہنر جاؤ غزل ہونے تک