خوشی ہر دم نہیں رہتی مسلسل غم نہیں ہوتا
خوشی ہر دم نہیں رہتی مسلسل غم نہیں ہوتا
محبت میں ہمیشہ ایک سا موسم نہیں ہوتا
سلیقے سے بچھڑتے ہم پشیمانی نہیں ہوتی
تمہیں صدمہ نہیں ہوتا ہمیں بھی غم نہیں ہوتا
بچھڑ کر بھی بہت نزدیک رہتا ہے ترا سایہ
وہ مجھ سے دور جاتا ہے مگر مدھم نہیں ہوتا
شکستہ پاؤں والے بھی تو منزل تک پہنچتے ہیں
بہت دشوار راہوں میں بھی جذبہ کم نہیں ہوتا
صفا مروہ نہیں ہوتا ہر اک پانی کی قسمت میں
تڑپ کر جو نہ نکلے آب وہ زمزم نہیں ہوتا
قبیلے میں ابھی تھوڑی بہت سچائی باقی ہے
یزید وقت کے آگے مرا سر خم نہیں ہوتا
سرورؔ اس نے محبت کی قلم سے کچھ تو لکھا ہے
ترا غم گر نہیں لکھتا تو کاغذ نم نہیں ہوتا