اجڑا لگتا ہے غریبوں کا نگر شام کے بعد
اجڑا لگتا ہے غریبوں کا نگر شام کے بعد
دیکھ لیتے ہیں وہ امید سحر شام کے بعد
دھوپ رسوائی کا سامان لیے پھرتی ہے
اس کو آنا تھا تو آ جاتا مگر شام کے بعد
صبح ہوتے ہی وہ مرجھا گیا توبہ توبہ
کھل گیا تھا جو محبت کا ثمر شام کے بعد
وہ گلستاں میں رہے یا کسی ویرانے میں
ڈھونڈ لیتا ہے اسے ذوق نظر شام کے بعد
اپنی قسمت میں نہیں جشن چراغاں کا سرورؔ
رات آئی نہیں ہوتی ہے سحر شام کے بعد