ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں نگر روشن تھا

ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں نگر روشن تھا
ہم جسے چھوڑ کے آئے تھے وہ گھر روشن تھا


روشنی میں بھی اندھیروں کا گماں ہوتا ہے
تم مرے ساتھ تھے جب تک تو سفر روشن تھا


وہ مجھے چھوڑ گیا پر اسے معلوم نہ تھا
دور تک عزم سفر ساتھ تھا در روشن تھا


لوگ شاید اسے آثار قدیمہ سمجھیں
اس اداسی پہ نہ جا یہ بھی کھنڈر روشن تھا


خود نمائی کا اسے آنے لگا کیسا نشہ
جس طرف اس کی نگاہیں تھیں ہنر روشن تھا


بادشاہت مرے حصے میں کبھی تھی ہی نہیں
پھر بھی پیشانی پہ وہ شمس و قمر روشن تھا


اس کی قسمت میں بھی تھوڑا سا اجالا تھا سرورؔ
جو دیا بجھتا ہوا وقت سحر روشن تھا