خواہشیں ہیں بہت آرزوئیں بہت سوچتی ہوں کہ تم بن یہ گھر کیا کروں

خواہشیں ہیں بہت آرزوئیں بہت سوچتی ہوں کہ تم بن یہ گھر کیا کروں
راہ چلتے ہوئے تھک گئے ہیں قدم ختم ہوتا نہیں یہ سفر کیا کروں


کوئی سورج مرے ساتھ چلتا نہیں کوئی سایہ بھی مجھ سے الجھتا نہیں
چاند بھی اب نکلتا نہیں ہے یہاں سونا سونا ہے دل کا نگر کیا کروں


میں ترا دکھ بنوں میں ترا غم بنوں راس آ جائے تجھ کو وہ موسم بنوں
کوئی تدبیر اب کام آتی نہیں اور دل پر ترے میں اثر کیا کروں


ہے چکا چوند شہرت کی یہ روشنی تو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں زندگی
راستے میرے پیروں میں سونے کے ہیں اور چاندی کی ہے رہ گزر کیا کروں


درد دل میں رکھوں بھی تو کب تک نہاں دکھ میں اپنا کروں بھی تو کس پر عیاں
زخم دیتی ہیں مجھ کو یہ تنہائیاں مجھ کو تکتے ہیں دیوار و در کیا کروں


سامنے ہے نظر کے کھلا آسماں میں قفس سے نکل کر بھی جاؤں کہاں
آ بھی جاؤں میں اڑ کر ترے پاس بھی پر مرے کٹ گئے ہیں مگر کیا کروں


میں سرورؔ اس کی خاطر کروں بھی تو کیا مجھ سے روٹھا ہوا ہے مسیحا مرا
ہر شفا ہر دوا میری بے فیض ہے ہر دعا ہو گئی بے اثر کیا کروں