سارے دکھ بھول گئے سارے ستم بھول گئے
سارے دکھ بھول گئے سارے ستم بھول گئے
تم کو دیکھا تو سبھی رنج و الم بھول گئے
ان کو وہ لکھ دیا جو ہم کو نہیں لکھنا تھا
خط میں جو کچھ ہمیں کرنا تھا رقم بھول گئے
آپ سے ہم نے نہ ملنے کی قسم کھائی تھی
جانے کیا ہو گیا ہم اپنی قسم بھول گئے
مل گیا نقش قدم تیرا جبیں کو اپنی
لوگ کہتے ہیں کہ ہم دیر و حرم بھول گئے
وہ اگر پوچھ لیں کل کیوں نہیں ملنے آئے
تھوڑا اٹھلائیں گے کہہ دیں گے کہ ہم بھول گئے
بے وفا ہم نہیں حالات ہمارے ہیں سرورؔ
عمر بھر ہم نے کئے ان پہ کرم بھول گئے