کیا کھویا تھا کیا پایا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
کس سے بچھڑے کون ملا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
یاد ہے بس اتنا ہی مجھ کو میں نے پیڑ پہ لکھا تھا
لیکن کس کا نام لکھا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
ہلکا ہلکا یاد ہے اتنا کچھ نہ کچھ تو ٹوٹا تھا
دل تھا یا پھر عہد وفا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
سکھیاں ساتھی کھیل کھلونے اپنے لیے تو خواب ہی تھے
بچپن اپنا کب بیتا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
اوروں کی خاطر جینا تھا اور اس جینے کی خاطر
ہم نے کتنا زہر پیا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں
رہزن بن کر رہبر نے ہی لوٹا تھا اک روز قمرؔ
کون لٹا تھا کون بچا تھا اب تو یہ بھی یاد نہیں