Priyamvada Singh

پریمودا سنگھ

پریمودا سنگھ کی غزل

    عمر سے لڑنے گئے جو خواب سارے ڈھ گئے

    عمر سے لڑنے گئے جو خواب سارے ڈھ گئے ریت کے گھر سارے اک موج رواں میں بہہ گئے لمحہ لمحہ ایک تعمیر مسلسل تھی حیات آہ لیکن نیو کے لمحے ہی باہر رہ گئے ہر کسی کے اندروں میں جھانکنا ممکن نہ تھا پر ذرا پائی وہ خوشبو پھر تو تہہ در تہہ گئے موسم ہجراں میں یہ بارش یہ خوشبو یہ گھٹا کیا یہ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے خوابوں میں گم اک زندگی ہوتی رہی

    عشق کے خوابوں میں گم اک زندگی ہوتی رہی یعنی ہم سے پیرویٔ تیرگی ہوتی رہی نوکری پھر عاشقی یہ ہی ہیں اپنے ریگزار زندگی کی دوڑ ہی آوارگی ہوتی رہی دل ہی دل میں جانے کب تک چھیڑ خوابوں سے چلی دل ہی دل میں جانے کب تک دل لگی ہوتی رہی ایسے پیاسوں کی حکومت ہوگی دریاؤں پہ اب جن کی گگری میں ...

    مزید پڑھیے

    جا نہ پاؤ گے کسی صورت وہ صورت چھوڑ کر

    جا نہ پاؤ گے کسی صورت وہ صورت چھوڑ کر لاکھ کوشش سے چھپائی ہے جو حسرت چھوڑ کر کچھ نہ کہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے کبھی گھٹتے رہنا زندگی بھر اک ضرورت چھوڑ کر آتی ہیں جو خوشبوئیں ان کھڑکیوں سے آج بھی عشق گزرا تھا کبھی اپنی اشارت چھوڑ کر دل کو ہونا ہے فنا رہنا ہے قائم عقل کو ہستیٔ آدم ...

    مزید پڑھیے

    مانگتے ہیں موت جو وہ موت جانے بھی نہیں

    مانگتے ہیں موت جو وہ موت جانے بھی نہیں موت آنے سے فقط جاتی ہیں جانیں ہی نہیں سوچتی تھی تم سے مل کر زندگی کو کیا ہوا پھر خیال آیا کہ پہلے زندگی ہی تھی نہیں ایک ساگر آسماں سے ملنے کو ہے اٹھ رہا ایک دھرتی ڈوبتی ہے کچھ مگر کہتی نہیں

    مزید پڑھیے

    رہ گزر کے ساتھ اک ہم راہ بھی تو چاہیے

    رہ گزر کے ساتھ اک ہم راہ بھی تو چاہیے اور آغاز سفر کو چاہ بھی تو چاہیے ناز و انداز و ادا یہ عشق کے رہبر ہیں سب ہم کو اس طوفاں کی لیکن تھاہ بھی تو چاہیے آہ و گریہ سوگ ماتم شاعری میں کر کے نظم اپنی عیاری پہ اب کچھ واہ بھی تو چاہیے مصلحت اللہ کی کچھ ہوگی درد عشق میں ہے سکوں کی بات پر ...

    مزید پڑھیے

    دل لگانے ہم چلے تھے دل کے سو ٹکڑے ہوئے

    دل لگانے ہم چلے تھے دل کے سو ٹکڑے ہوئے کیا کہیں اک عشق میں کار جنوں کتنے ہوئے ہم کو لگتا تھا نکل آئے ہیں سائے سے ترے لوگ لیکن پوچھتے ہیں کیا تھے تم کیسے ہوئے اب نہ کوئی آرزو ہے اور نہ وحشت ہی رہی اک گھڑی ہے اس کے کانٹوں سے ہیں بس لٹکے ہوئے ہم کو جو سننا تھا وہ بولا انہوں نے کس ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ محرومی کی برکت زندہ ہوں

    دیکھ محرومی کی برکت زندہ ہوں میں ترے غم کی بدولت زندہ ہوں جنتیں ہیں مردہ جسموں کے لئے یہ سزا ہے یا عنایت زندہ ہوں اس خزاں میں کانٹے تک بھی مر چکے پھر بھی کہتی ہے وہ نکہت زندہ ہوں سچ ہے دنیا نفرتوں کی ہے مگر میں یہاں بھی با محبت زندہ ہوں لکھ رکھے ہیں میں نے بھی فضل و عذاب مالک ...

    مزید پڑھیے

    حسرتوں کا سلسلہ ہے زندگی بھر کے لیے

    حسرتوں کا سلسلہ ہے زندگی بھر کے لیے عشق کیا ہے مسئلہ ہے زندگی بھر کے لیے وہ یہ بولا جانے کب تک ساتھ میرے تم رہو میں یہ بولی یہ بلا ہے زندگی بھر کے لیے ہم نہ دے پائے کسی کو غم نہ دے پائے سکوں خود سے بس یہ ہی گلہ ہے زندگی بھر کے لیے لے کے حق کی بات اٹھیں کٹ کٹ کے میداں میں گریں زندگی ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں سنتے تو تھے لطف جوانی اور ہے

    عشق میں سنتے تو تھے لطف جوانی اور ہے جو مگر گزری ہے ہم پر وہ کہانی اور ہے اس نے ماتھے پر رکھے لب اور ہوئے روشن نصیب سب متاع دہر میں اس کی نشانی اور ہے لفظ کن سے ایک دنیا خلق کرنا تھا کمال کن کے آگے جو ہوا اس کی کہانی اور ہے ایک زخم دل سے پھوٹے مختلف رنگوں کے دکھ ہے الگ خون جگر ...

    مزید پڑھیے

    پکارا جب کسی نے یاد آئی

    پکارا جب کسی نے یاد آئی دھڑک تجھ میں دل برباد آئی بہت پہلے کھنڈر ہو بھی چکی تھی وہ دنیا جو نظر آباد آئی جہاں آواز اٹھانا بھی تھا ممنوع مری دھڑکن ہی بن کر ناد آئی کوئی شکوہ لبوں سے ہو نہ پایا سبھی ظلموں پہ میری داد آئی ہمیں معلوم ہیں اس کے ٹھکانے ہوا میں گھل کے جو فریاد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2