Priyamvada Singh

پریمودا سنگھ

پریمودا سنگھ کی غزل

    دل ہی دل میں آرزو جس کی کیا کرتے تھے ہم

    دل ہی دل میں آرزو جس کی کیا کرتے تھے ہم مشورے بھی عشق کے اس کو دیا کرتے تھے ہم جانے کتنے سال گزرے جانے کتنے دن گئے ایک ایسا دور بھی تھا جب جیا کرتے تھے ہم اب چھپائے پھر رہے ہیں ہم جو اپنے زخم دل ان پیالوں سے کبھی کھل کر پیا کرتے تھے ہم ہم کو ہر مخلص دوا بھی لگتی ہے خنجر سی اب ایک ...

    مزید پڑھیے

    خواب چاہے خواب ہی ہو دل لگانے دے مجھے

    خواب چاہے خواب ہی ہو دل لگانے دے مجھے اس حقیقت سے کبھی تو جاں چھڑانے دے مجھے انقلاب آ کے رہے گا حق کی ہوگی جیت ہی بیٹھ میرے پاس خود کو ورغلانے دے مجھے بے طرح تنہا ہیں وہ جو عشق کے قائل نہیں ان کو سینے سے لگا کچھ پل سلانے دے مجھے آج کل تو خواب بھی آنے لگے ہیں عام سے آ بچھڑ جا خواب ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ محرومی کی برکت زندہ ہوں

    دیکھ محرومی کی برکت زندہ ہوں میں ترے غم کی بدولت زندہ ہوں جنتیں ہیں مردہ جسموں کے لئے یہ سزا ہے یا عنایت زندہ ہوں اس خزاں میں کانٹے تک بھی مر چکے پھر بھی کہتی ہے وہ نکہت زندہ ہوں سچ ہے دنیا نفرتوں کی ہے مگر میں یہاں بھی با محبت زندہ ہوں لکھ رکھے ہیں میں نے بھی فضل عذاب مالک روز ...

    مزید پڑھیے

    عشق کا مرکز ہے جو اس لڑکے کو لائے کوئی

    عشق کا مرکز ہے جو اس لڑکے کو لائے کوئی کب تلک پاگل پھرے گی لڑکی بتلائے کوئی اس کے وعدے اس کی یادیں سب ہیں اس دل میں رکھے اب ہے دھڑکا اس تجوری کو نہ لے جائے کوئی اس سے ہی ہیں سارے موسم اس کا مسکانا بہار کھل کے وہ ہنس دے کبھی اور میگھ برسائے کوئی پھر تری آواز کے دھوکے میں کھڑکی تک ...

    مزید پڑھیے

    تم کبھی میری طرح برباد ہو کر دیکھنا

    تم کبھی میری طرح برباد ہو کر دیکھنا میں نے جو اک عمر دیکھا اس کو پل بھر دیکھنا آنکھ کی خاموشیوں میں کتنے طوفاں ہیں چھپے ایک موج یاد بس اور پھر وہ منظر دیکھنا ساتھ تھے تو جذبوں میں احساس شدت کچھ نہ تھا وقت رخصت دونوں کا وہ آنکھ بھر بھر دیکھنا یوں تو کچھ کمتر نہیں ہے ہر کسی کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2