رہ گزر کے ساتھ اک ہم راہ بھی تو چاہیے
رہ گزر کے ساتھ اک ہم راہ بھی تو چاہیے
اور آغاز سفر کو چاہ بھی تو چاہیے
ناز و انداز و ادا یہ عشق کے رہبر ہیں سب
ہم کو اس طوفاں کی لیکن تھاہ بھی تو چاہیے
آہ و گریہ سوگ ماتم شاعری میں کر کے نظم
اپنی عیاری پہ اب کچھ واہ بھی تو چاہیے
مصلحت اللہ کی کچھ ہوگی درد عشق میں
ہے سکوں کی بات پر اللہ بھی تو چاہیے
جیت ان کی ہے کہ جو کرتے نہیں اظہار درد
ظلم کو سر چاہیے پر آہ بھی تو چاہیے
کب تک آخر کرتے جائیں ہم یہ کار انتظار
سال میں دو سال میں تنخواہ بھی تو چاہیے
خودکشی اک آخری کوشش ہے زندہ رہنے کی
خودکشی کرنے کو اک پرواہ بھی تو چاہیے