عمر سے لڑنے گئے جو خواب سارے ڈھ گئے
عمر سے لڑنے گئے جو خواب سارے ڈھ گئے
ریت کے گھر سارے اک موج رواں میں بہہ گئے
لمحہ لمحہ ایک تعمیر مسلسل تھی حیات
آہ لیکن نیو کے لمحے ہی باہر رہ گئے
ہر کسی کے اندروں میں جھانکنا ممکن نہ تھا
پر ذرا پائی وہ خوشبو پھر تو تہہ در تہہ گئے
موسم ہجراں میں یہ بارش یہ خوشبو یہ گھٹا
کیا یہ کچھ کم تھا کے ہم پھولوں کا کھلنا سہ گئے
اچھا اچھا آپ ہیں وہ جو ہیں دنیا سے الگ
اتفاقاً یہ ہی سارے دنیا والے کہ گئے