حسرتوں کا سلسلہ ہے زندگی بھر کے لیے
حسرتوں کا سلسلہ ہے زندگی بھر کے لیے
عشق کیا ہے مسئلہ ہے زندگی بھر کے لیے
وہ یہ بولا جانے کب تک ساتھ میرے تم رہو
میں یہ بولی یہ بلا ہے زندگی بھر کے لیے
ہم نہ دے پائے کسی کو غم نہ دے پائے سکوں
خود سے بس یہ ہی گلہ ہے زندگی بھر کے لیے
لے کے حق کی بات اٹھیں کٹ کٹ کے میداں میں گریں
زندگی اک کربلا ہے زندگی بھر کے لیے
خوش نما محفل میں بھی سسکی سنائی دیتی ہے
کوئی مجھ میں مبتلا ہے زندگی بھر کے لیے
دل لگائیں زخم کھائیں اور گاتے جائیں گیت
کس کا اتنا حوصلہ ہے زندگی بھر کے لیے