جا نہ پاؤ گے کسی صورت وہ صورت چھوڑ کر

جا نہ پاؤ گے کسی صورت وہ صورت چھوڑ کر
لاکھ کوشش سے چھپائی ہے جو حسرت چھوڑ کر


کچھ نہ کہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے کبھی
گھٹتے رہنا زندگی بھر اک ضرورت چھوڑ کر


آتی ہیں جو خوشبوئیں ان کھڑکیوں سے آج بھی
عشق گزرا تھا کبھی اپنی اشارت چھوڑ کر


دل کو ہونا ہے فنا رہنا ہے قائم عقل کو
ہستیٔ آدم کہاں جائے یہ فطرت چھوڑ کر


بندگی میں بھی ہمیں کوئی تعلق چاہئے
مٹی کب رہ پائی ہے مٹی کی مورت چھوڑ کر


تو سراپا ہے سکوں یعنی فقط صبر و قرار
دل تو مر جائے گا لیکن اپنی حیرت چھوڑ کر