عشق میں سنتے تو تھے لطف جوانی اور ہے

عشق میں سنتے تو تھے لطف جوانی اور ہے
جو مگر گزری ہے ہم پر وہ کہانی اور ہے


اس نے ماتھے پر رکھے لب اور ہوئے روشن نصیب
سب متاع دہر میں اس کی نشانی اور ہے


لفظ کن سے ایک دنیا خلق کرنا تھا کمال
کن کے آگے جو ہوا اس کی کہانی اور ہے


ایک زخم دل سے پھوٹے مختلف رنگوں کے دکھ
ہے الگ خون جگر آنکھوں کا پانی اور ہے


لگتے ہوں گے پر کشش ارض و سما ملتے ہوئے
نیلے کرتے پر ترے یہ شال دھانی اور ہے


ایک سے دل ہیں جدا لیکن دھڑکنے کے سبب
رائیگاں تو سب ہیں لیکن رائیگانی اور ہے


لمحہ لمحہ کھینچ کر برسوں چلاتے ہو جو تم
یہ ہے قید با مشقت زندگانی اور ہے


تم پرندے دیکھنے والے تمہیں کیا ہے خبر
ہے الگ پرواز اور نقل مکانی اور ہے


ہو وصال یار اب ہو صورت اظہار اب
عشق ہوگا جاوداں یہ جسم فانی اور ہے