Pirzada Qasim

پیرزادہ قاسم

سماجی اور سیاسی طنز کی حامل شاعری کے لئے معروف پاکستانی شاعر

Pakistani poet known for the ghazals laced with social and political satire

پیرزادہ قاسم کی غزل

    عیاں ہم پر نہ ہونے کی خوشی ہونے لگی ہے

    عیاں ہم پر نہ ہونے کی خوشی ہونے لگی ہے دیے میں اک نئی سی روشنی ہونے لگی ہے نئی کچھ حسرتیں دل میں بسیرا کر رہی ہیں بہت آباد اب دل کی گلی ہونے لگی ہے سو طے پایا مصائب زندگی کے کم نہ ہونگے مگر کم زندگی سے زندگی ہونے لگی ہے ادھر تار نفس سے آ ملی ہے رونق زیست ادھر کم مہلتی میں بھی کمی ...

    مزید پڑھیے

    اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے

    اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے یعنی اب جرم اسیری کی سزا دی جائے دست نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے اس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے اور ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ رہا ہے آشیانوں سے دھواں دیکھے گا کون

    اٹھ رہا ہے آشیانوں سے دھواں دیکھے گا کون ہے مگر تعبیر خواب رائیگاں دیکھے گا کون جل رہی ہے دل میں اک آفاق سے رشتے کی لو جیسے ہم دیکھے ہیں سوئے آسماں دیکھے گا کون تو بہت آئندگاں کا کھینچتا ہے انتظار بے خبر وہ رونق آئندگاں دیکھے گا کون ایک احساس شکست شب بہت روشن مگر بے کراں اس بے ...

    مزید پڑھیے

    لڑکھڑاتے ہوئے بھی اور سنبھلتے ہوئے بھی

    لڑکھڑاتے ہوئے بھی اور سنبھلتے ہوئے بھی اس کے در پر ہی گئے خواب میں چلتے ہوئے بھی عشق آثار تھی ہر راہ گزر اس کی تھی ہم بھٹک سکتے نہ تھے راہ بدلتے ہوئے بھی عشق ہے عشق بہ ہر حال نمو پائے گا یعنی جلتے ہوئے بھی اور پگھلتے ہوئے بھی زندگی تیرے فقط ایک تبسم کے لیے ہم کہ ہنستے ہی رہے درد ...

    مزید پڑھیے

    کار خلوص یار کا مجھ کو یقین آ گیا

    کار خلوص یار کا مجھ کو یقین آ گیا اتنا شدید وار تھا مجھ کو یقین آ گیا بس یوں ہی کچھ گماں سا تھا کوئی پس سخن بھی ہے در جو لب کشا ہوا مجھ کو یقین آ گیا پھر وہ ہوا کا قہقہہ کان میں گونجنے لگا اور بھی اک دیا بجھا مجھ کو یقین آ گیا دائرہ وار تھا سفر عشق جنوں صفات کا ہجر و وصال کچھ نہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    یاد کیا دست ہنر ہے کہ سنورتا گیا میں

    یاد کیا دست ہنر ہے کہ سنورتا گیا میں اس کو سوچا تو اسے یاد ہی کرتا گیا میں اس کو تہذیب جنوں کہیے کہ مجھ سے پہلے جیسے بکھرے ہیں سبھی لوگ بکھرتا گیا میں نقش کتنے تھے کہ معدوم ہوئے سلسلہ وار اور ہر نقش کے پہلے سے ابھرتا گیا میں ایک تصویر بنائی تھی مکمل نہ ہوئی ایک ہی رنگ لہو رنگ ...

    مزید پڑھیے

    جیسے یاد انبساط و غم شکیبائی کے بعد

    جیسے یاد انبساط و غم شکیبائی کے بعد دیر تک روتے رہے ہم بزم آرائی کے بعد اے سرشت شوق اب ناپید ہو کر دیکھ لے اور کیا ہونا ہے اس ہونے کی رسوائی کے بعد اس قدر سفاک کب تھی وقت کی بے منظری کور چشمی سے بھی بڑھ کر دکھ ہیں بینائی کے بعد خود کو پا لینے کی حسرت میں بہت رسوا ہوئے کچھ سوا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے نہ پوچھ جائے گی ہجر کی رہ گزر کہاں

    ہم سے نہ پوچھ جائے گی ہجر کی رہ گزر کہاں شام ہوئی تو تھی کہیں صبح ہوئی مگر کہاں دانہ و دام سے پرے میری اڑان یاد کر مجھ کو تلاش کر نہ دیکھ رکھے ہیں بال و پر کہاں عشق حصار ذات سے دور بہت نکل گیا ایسے میں جبر وقت بھی ہوتا ہے کارگر کہاں ولولہ ہائے شوق سب صرف مہاجرت ہوئے اب سر منزل وفا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ہے جو شکست ضبط غم ہونے نہیں دیتا

    کوئی ہے جو شکست ضبط غم ہونے نہیں دیتا میں رونا چاہتا ہوں اور وہ رونے نہیں دیتا سر آغاز ہر شب اک نیا غم گھیر لیتا ہے جو خود بھی جاگتا ہے اور مجھے سونے نہیں دیتا نئے غم بخشتا ہے دل کو بہلائے بھی جاتا ہے غرض وہ اعتبار غم کبھی کھونے نہیں دیتا بہت جی چاہتا ہے خود کو اب رو لیں سر ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھئے کہ کہا کیا ہے ان کہی کیا ہے

    نہ پوچھئے کہ کہا کیا ہے ان کہی کیا ہے عذاب جھیل رہا ہوں سخنوری کیا ہے عجب ہے ذوق تماشا کہ گھر جلا کر لوگ یہ چاہتے ہیں سمجھنا کہ روشنی کیا ہے پس نظر ہو اگر مقصد حیات تو پھر یہ زیست وقت گزاری ہے زندگی کیا ہے میں ملتجی ہوں نہ وہ ملتفت مگر پھر بھی یہ ایک آگ دلوں میں لگی ہوئی کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5