یاد کیا دست ہنر ہے کہ سنورتا گیا میں
یاد کیا دست ہنر ہے کہ سنورتا گیا میں
اس کو سوچا تو اسے یاد ہی کرتا گیا میں
اس کو تہذیب جنوں کہیے کہ مجھ سے پہلے
جیسے بکھرے ہیں سبھی لوگ بکھرتا گیا میں
نقش کتنے تھے کہ معدوم ہوئے سلسلہ وار
اور ہر نقش کے پہلے سے ابھرتا گیا میں
ایک تصویر بنائی تھی مکمل نہ ہوئی
ایک ہی رنگ لہو رنگ تھا بھرتا گیا میں
حرف اقرار ہی کہتا رہا بے خوفی سے
یعنی انکار کے آشوب سے ڈرتا گیا میں
دامن وقت سے سو حرف ستائش بھی چنے
اور الزام سبھی وقت پہ دھرتا گیا میں
اپنے اندر کے تلاطم نے رکھا ہے آباد
خود ہی اقرار کیا خود ہی مکرتا گیا میں
مجھ میں ہر لمحہ فزوں تر ہوا اندوہ جمال
اور تصویر کے مانند سنورتا گیا میں
ہر نفس بڑھتا گیا اس کی تمنا کا خروش
لمحہ لمحہ اسی وحشت میں نکھرتا گیا میں
زندگی کوئے ملامت ہے کوئی کیا ٹھہرے
اپنی ہی وضع کا میں ہوں سو ٹھہرتا گیا میں