کار خلوص یار کا مجھ کو یقین آ گیا
کار خلوص یار کا مجھ کو یقین آ گیا
اتنا شدید وار تھا مجھ کو یقین آ گیا
بس یوں ہی کچھ گماں سا تھا کوئی پس سخن بھی ہے
در جو لب کشا ہوا مجھ کو یقین آ گیا
پھر وہ ہوا کا قہقہہ کان میں گونجنے لگا
اور بھی اک دیا بجھا مجھ کو یقین آ گیا
دائرہ وار تھا سفر عشق جنوں صفات کا
ہجر و وصال کچھ نہ تھا مجھ کو یقین آ گیا
اب مرا درد بجھ گیا اب مرا زخم بھر چلا
پھر وہی دوست آئے گا مجھ کو یقین آ گیا