اٹھ رہا ہے آشیانوں سے دھواں دیکھے گا کون
اٹھ رہا ہے آشیانوں سے دھواں دیکھے گا کون
ہے مگر تعبیر خواب رائیگاں دیکھے گا کون
جل رہی ہے دل میں اک آفاق سے رشتے کی لو
جیسے ہم دیکھے ہیں سوئے آسماں دیکھے گا کون
تو بہت آئندگاں کا کھینچتا ہے انتظار
بے خبر وہ رونق آئندگاں دیکھے گا کون
ایک احساس شکست شب بہت روشن مگر
بے کراں اس بے حسی کے درمیاں دیکھے گا کون
آرزو کا اک جہان تازہ بھی منظر میں ہے
میں جسے پہچانتا ہوں وہ جہاں دیکھے گا کون
راستے روشن بہت کرتا رہا ہوں زیر پا
دور تک پھیلے ہیں قدموں کے نشاں دیکھے گا کون
داد جانکاہی کی کس سے پائیں اب اہل ہنر
خوں چکیدہ خامہ رستی انگلیاں دیکھے گا کون
دیکھتے ہیں سب فروع شوق کی زیبائشیں
کم نہیں کچھ یہ مآل شوق ہاں دیکھے گا کون
رفتہ رفتہ ہو رہے گا زخم دل کا اندمال
بجھتے بجھتے بجھ ہی جائے گی فغاں دیکھے گا کون
دیکھ دل میں ہو رہا ہے اک نیا منظر طلوع
جو ادھر بکھری پڑی ہے کہکشاں دیکھے گا کون