ہم سے نہ پوچھ جائے گی ہجر کی رہ گزر کہاں

ہم سے نہ پوچھ جائے گی ہجر کی رہ گزر کہاں
شام ہوئی تو تھی کہیں صبح ہوئی مگر کہاں


دانہ و دام سے پرے میری اڑان یاد کر
مجھ کو تلاش کر نہ دیکھ رکھے ہیں بال و پر کہاں


عشق حصار ذات سے دور بہت نکل گیا
ایسے میں جبر وقت بھی ہوتا ہے کارگر کہاں


ولولہ ہائے شوق سب صرف مہاجرت ہوئے
اب سر منزل وفا ڈھونڈ رہے ہو گھر کہاں


چھوڑ کے کاروان شوق منزل غم پہ کر قیام
مثل غبار کارواں پھرتا ہے در بہ در کہاں