Parwez Rahmani

پرویز رحمانی

پرویز رحمانی کی غزل

    امکانوں سے آگے میرے دوش پڑی ہیں

    امکانوں سے آگے میرے دوش پڑی ہیں جانی پہچانی آوازیں گوش پڑی ہیں تب سے ہوں کس سناٹے میں کیا بتلاؤں کچھ پہچانیں جب سے میرے ہوش پڑی ہیں تاریکی کیا ظاہر کر پائے گی ان کو روشنیوں میں جو شکلیں روپوش پڑی ہیں خواب اجداد کے بیٹوں کا رستہ تکتے ہیں دور فلک پر تعبیریں خاموش پڑی ہیں نطفے ...

    مزید پڑھیے

    جب تک تعلقات ہمارے بنے رہے

    جب تک تعلقات ہمارے بنے رہے ہم ایک دوسرے کے سہارے بنے رہے جب تک کھلے ہوئے تھے دلوں میں غرض کے پھول تم بھی ہمارے ہم بھی تمہارے بنے رہے خواہش کے اور چھور سے واقف تھے ہم مگر دریا کے آر پار کنارے بنے رہے ارمان ہانپتے رہے دو کھڑکیوں کے بیچ آنکھوں کے درمیان اشارے بنے رہے خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ساتھ چہرے ہیں میرے سنگ آئنہ

    تیرے ساتھ چہرے ہیں میرے سنگ آئنہ دیکھ آج ہوتا ہے کس پہ تنگ آئینہ بول خود شناسی پھر کس طرح سے ممکن ہو پیش کر رہا ہو جب سات رنگ آئینہ خود پرستیوں نے بھی خوب روشنی بخشی بن گیا اندھیروں میں ایک سنگ آئینہ لخت لخت آوازیں فرد فرد پہچانیں شور شور خاموشی وجہ جنگ آئینہ تیرے شہر کا قصہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر کوئی کیوں چپ بیٹھا ہے صاحب جی کچھ تو بولو

    ہر کوئی کیوں چپ بیٹھا ہے صاحب جی کچھ تو بولو خاموشی کا کیا قصہ ہے صاحب جی کچھ تو بولو آج قلم کا روزہ ہے کیا یا کاغذ تقوے سے ہے قاصد کیوں فرصت لکھتا ہے صاحب جی کچھ تو بولو انگنائی کے پیڑ پہ پنچھی ذکر میں کیوں مصروف نہیں یہ سناٹا سا کیسا ہے صاحب جی کچھ تو بولو مجبوری سے مختاری تک ...

    مزید پڑھیے

    تب سے وفا کا تذکرہ گونگے کا خواب ہو گیا

    تب سے وفا کا تذکرہ گونگے کا خواب ہو گیا جب سے میں دل بدر ہوا خانہ خراب ہو گیا پائے نگاہ آ لگے جب لب منزل طلب آنکھیں پر آب ہو گئیں دریا سراب ہو گیا اپنے جہاز لے کے تب آئے جہاز ران کب میرا جزیرۂ وجود جب تہہ آب ہو گیا چشم وزیر مملکت اس پہ ہوئی جو مہرباں تب سے وہ ننگ شہر بھی عالی ...

    مزید پڑھیے

    صعوبت کا بدل آسودگی کا پل نہیں پکڑا

    صعوبت کا بدل آسودگی کا پل نہیں پکڑا سفر میں دھوپ کے ہم نے کبھی چھاگل نہیں پکڑا کہیں ہم سے زیادہ اور کو ان کی ضرورت ہو یہی کچھ سوچ کر ہم نے کبھی بادل نہیں پکڑا کہ جب سے مردوں کی سوداگری ہاتھ آ گئی اس کے شکاری نے پلٹ کر پھر کبھی جنگل نہیں پکڑا پرندے جو گئے لوٹے نہیں پھر آشیانوں ...

    مزید پڑھیے

    خوشبوؤں کا شہر اجڑا گھر سے بے گھر ہو گئے

    خوشبوؤں کا شہر اجڑا گھر سے بے گھر ہو گئے بادشاہت ہاتھ سے نکلی گداگر ہو گئے تیرگی میں جا پڑے روشن تقاضے صبح کے جھوٹ سچے تھے جبھی لوگوں کو ازبر ہو گئے جتنے عرصے ہم رہے خود سر انا کے زیر پا ذرے سورج بن گئے قطرے سمندر ہو گئے تھا قصور اپنا یہی بس آئنہ شانے پہ تھا چہرے کیا ابھرے سبھی ...

    مزید پڑھیے

    عکس در عکس آئنہ تقسیم

    عکس در عکس آئنہ تقسیم ایک بندے پہ سو خدا تقسیم چشم در چشم موج موج فرات روح در روح کربلا تقسیم انفرادی شکار چہ معنی چار بازوں میں فاختہ تقسیم خنجروں پر لہو کی صد آہٹ سو زبانوں میں ذائقہ تقسیم خوان لے کر فرشتے اترے تھے مفلسی کر گئی انا تقسیم کھولتا کون پاؤں کی بندش ہر قدم پہ ...

    مزید پڑھیے

    اندھیروں سے اگر آئینہ سامانی ہوئی ہوگی

    اندھیروں سے اگر آئینہ سامانی ہوئی ہوگی بڑی مشکل سے کوئی شکل نورانی ہوئی ہوگی چراغوں کے پتے ملتے نہیں شب گاہ ہستی میں ہوائے شام تجھ سے کوئی نادانی ہوئی ہوگی نہیں مجھ سا کوئی تنہا زمانے میں ہوا ہوگا نہ آبادے میں اس صورت بیابانی ہوئی ہوگی نظر کے سامنے پھیلا ہوا دشتاب سا کیا ...

    مزید پڑھیے

    بستر پر بے چین نراشا کے سلوٹ سلوٹ جاگے

    بستر پر بے چین نراشا کے سلوٹ سلوٹ جاگے تنہائی کی رام دہائی ہم کروٹ کروٹ جاگے کوئی سایہ کوئی خوشبو کوئی صدا کوئی دستک امیدوں کی سیج سجائے ہم آہٹ آہٹ جاگے پیت کے میٹھے مدھر منوہر بول لئے آتا ہے کوئی سانجھ کا ٹیلہ بولا کھڑکی دروازے چوکھٹ جاگے بھور ہوئی تو دھیرے دھیرے گیتوں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4