Parwez Rahmani

پرویز رحمانی

پرویز رحمانی کی غزل

    پے بہ پے آئینہ بندی میرے اس کے درمیاں

    پے بہ پے آئینہ بندی میرے اس کے درمیاں اک مسلسل خود فریبی میرے اس کے درمیاں رشتۂ خود اعتمادی میرے اس کے درمیاں کب رہی تھی خوش گمانی میرے اس کے درمیاں پیدا ہوتا کس طرح خود اعتمادی کا سوال کب رہی تھی خوش گمانی میرے اس کے درمیاں کون خفت مول لیتا پیش قدمی کرتا کون بزدلی پھیلی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    دل پاروں کی ہم جو نگہبانی کرتے

    دل پاروں کی ہم جو نگہبانی کرتے نور سہارے اپنی نگرانی کرتے ہوتے ہم بھی گر اجداد کی فطرت پر شعلہ زاروں میں گل افشانی کرتے پیار بھروسہ شفقت کھو دیتے سب کچھ کیسے بڑوں کی ہم نافرمانی کرتے کل جو اگر سختی سے پیش آئے ہوتے ہم بھی اپنے گھر میں سلطانی کرتے دور نگاہی دیدہ پھاڑے بیٹھی ...

    مزید پڑھیے

    جل گئیں آنکھیں سبھی خوش رنگ چہرے اڑ گئے

    جل گئیں آنکھیں سبھی خوش رنگ چہرے اڑ گئے ایسی گرمی تھی کہ آئینوں کے پارے اڑ گئے شام تک بھی جب کوئی نکلا نہ دانہ ڈالنے آنکھ بھر بھر کر منڈیروں سے پرندے اڑ گئے خوشبوؤں کے رتھ سے اترے بال پوچھا اور پھر تتلیوں کے دوش پر کافوری لمحے اڑ گئے بے خیالی مجھ کو میری سوچ تک لے آئی ...

    مزید پڑھیے

    اسے تب دیکھتے شاداب تھا جب

    اسے تب دیکھتے شاداب تھا جب وہ صحرا ہر طرف خوش خواب تھا جب کھڑے خوش فعلیاں کرتے تھے بگلے ندی میں گھٹنے گھٹنے آب تھا جب امیدی سیپیاں عرفان سی تھیں سمندر فکر کا پایاب تھا جب چمکتی خوشبوئیں تھیں مچھلیوں کی جزیرہ خواب کا دشتاب تھا جب قدم خود سے بڑھاتے تھے نہ رستے برستا چار سو ...

    مزید پڑھیے

    بس دیکھتے ہی دیکھتے صدیاں گزر گئیں

    بس دیکھتے ہی دیکھتے صدیاں گزر گئیں آبادیاں پہاڑوں سے نیچے اتر گئیں سوچے ہوئے دنوں کے بدن دار آ بسے پھر یوں ہوا کہ راتیں مرادوں سے بھر گئیں باغیچۂ جہان مکانوں سے بھر گیا پھر اور دیس تتلیاں پرواز کر گئیں ہم زندگی سمیٹتے کس طرح شہر میں وہ انتشار تھا کہ نگاہیں بکھر گئیں آئینے ...

    مزید پڑھیے

    گرم یادوں کی ردا سرد رتوں کی آواز

    گرم یادوں کی ردا سرد رتوں کی آواز بھیگی آنکھوں کی نوا سات سروں کی آواز ترچھے سورج نے سنی سایہ درازی کی دعا اور اونچی ہوئی کوتاہ قدوں کی آواز تب کہیں جا کے ہوئیں پھر مری جھلمل پلکیں ریزہ ریزہ ہوئی جب شیشہ گروں کی آواز میرے ہونٹوں پہ خموشی کا نہ کتبہ لکھنا گھٹ کے رہ جائے گی آواز ...

    مزید پڑھیے

    خشک آنکھوں کی کہانی دشت دشت اپنی ہی تھی

    خشک آنکھوں کی کہانی دشت دشت اپنی ہی تھی نم ہواؤں میں صدائے بازگشت اپنی ہی تھی ڈھونڈتے پھرتے رہے تھے سایہ سایہ زندگی دھوپ کی گلیوں میں صبح و شام گشت اپنی ہی تھی جاگتی رہتی تھیں آنکھیں خانہ خانہ خوف خوف خواب کی روشن نمائی طشت طشت اپنی ہی تھی جنگلوں سے شہر تک شانہ بہ شانہ پشت ...

    مزید پڑھیے

    آہٹیں تازہ مقدر کی طرف

    آہٹیں تازہ مقدر کی طرف آئنوں کے دھیان پتھر کی طرف وسوسے سینہ سپر موجود سے واہمے کی پشت خنجر کی طرف شیشہ شیشہ خوف ہر چہرے پہ نقش اک نشانہ سیکڑوں سر کی طرف حال پر دشمن کی پوشیدہ رخی آئنہ روشن سکندر کی طرف مسکرا کر آبلہ تن بڑھ گئے خار کے سرخاب بستر کی طرف روشنی باہر بڑی تیزاب ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں آنکھوں لپٹی ہوئی حیرانی ہے

    آنکھوں آنکھوں لپٹی ہوئی حیرانی ہے آئینہ آئینہ رو گردانی ہے خانہ داری پر ہے خلوت کا موسم وقت گزاری قصہ اور کہانی ہے مشکل تو یہ ہے اب مشکل کوئی نہیں جو بھی صورت ہے جانی پہچانی ہے سات بکھیڑے سات جھمیلے سب کے ساتھ چودہ گھر میں بکھری ایک کہانی ہے قصوں سے ہم زاد نکل آیا باہر حال کے ...

    مزید پڑھیے

    چند لا خطاب آنکھیں چند بے لقب چہرے

    چند لا خطاب آنکھیں چند بے لقب چہرے حسرتوں کے آئینے بے حسب نسب چہرے پارے ثابت و سالم آئنوں میں ہیں جب کہ ہوتے جاتے ہیں آخر مسخ کس سبب چہرے پانیوں نے بالآخر ریشہ ریشہ کر ڈالا عکس ریزیاں کب تک کرتے جاں بہ لب چہرے ڈوب جب گئیں آنکھیں ساتھ ساتھ سورج کے نکلے سیر کرنے کو گھاٹیوں سے تب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4