صعوبت کا بدل آسودگی کا پل نہیں پکڑا

صعوبت کا بدل آسودگی کا پل نہیں پکڑا
سفر میں دھوپ کے ہم نے کبھی چھاگل نہیں پکڑا


کہیں ہم سے زیادہ اور کو ان کی ضرورت ہو
یہی کچھ سوچ کر ہم نے کبھی بادل نہیں پکڑا


کہ جب سے مردوں کی سوداگری ہاتھ آ گئی اس کے
شکاری نے پلٹ کر پھر کبھی جنگل نہیں پکڑا


پرندے جو گئے لوٹے نہیں پھر آشیانوں میں
درختوں نے بھی اس کے بعد کوئی پھل نہیں پکڑا


سدا بھیگی رہیں خوف خدا کی روشنائی سے
مری آنکھوں نے دنیا کا دیا کاجل نہیں پکڑا


قناعت آج پر کی ہے پرندوں کی طرح میں نے
مرے ہاتھوں نے رحمانیؔ کسی پل کل نہیں پکڑا