امکانوں سے آگے میرے دوش پڑی ہیں

امکانوں سے آگے میرے دوش پڑی ہیں
جانی پہچانی آوازیں گوش پڑی ہیں


تب سے ہوں کس سناٹے میں کیا بتلاؤں
کچھ پہچانیں جب سے میرے ہوش پڑی ہیں


تاریکی کیا ظاہر کر پائے گی ان کو
روشنیوں میں جو شکلیں روپوش پڑی ہیں


خواب اجداد کے بیٹوں کا رستہ تکتے ہیں
دور فلک پر تعبیریں خاموش پڑی ہیں


نطفے جو بازار سے آئے ہیں کس کے ہیں
یہ باتیں اب تک نہ کسی کے ہوش پڑی ہیں


مستقبل حد درجہ خوش آئندے ہوا ہے
پچھلی قدروں سے نسلیں بے گوش پڑی ہیں


پشتوں پر سناٹا طاری ہونے کو ہے
اولادیں ہم جنسی میں مدہوش پڑی ہیں


سست خراموں نے پھر سے منزل ماری ہے
رفتیزوں کی نیندیں پھر خرگوش پڑی ہیں