ہر کوئی کیوں چپ بیٹھا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
ہر کوئی کیوں چپ بیٹھا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
خاموشی کا کیا قصہ ہے صاحب جی کچھ تو بولو
آج قلم کا روزہ ہے کیا یا کاغذ تقوے سے ہے
قاصد کیوں فرصت لکھتا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
انگنائی کے پیڑ پہ پنچھی ذکر میں کیوں مصروف نہیں
یہ سناٹا سا کیسا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
مجبوری سے مختاری تک دوری سے نزدیکی تک
آخر یہ کیسا پردہ ہے صاحب جی کچھ تو بولو
کس کس کا منہ بند کرو گے کس کو کس کو روکو گے
برا ملن کے بیچ میں کیا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
جو دروازہ لاچاری کے نام پہ مجھ پر بند رہا
کیا اب بھی وہ بند پڑا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
اس دنیا سے اس دنیا تک رسوا کر دینے کے بعد
اب لوگوں کا کیا کہنا ہے صاحب جی کچھ تو بولو
کل تک تم کو جان سے پیارا دل کا سہارا لگتا تھا
اب رحمانیؔ کیا لگتا ہے صاحب جی کچھ تو بولو