Parwez Rahmani

پرویز رحمانی

پرویز رحمانی کی غزل

    ہونٹوں پہ بھولے سے کبھی بھی تیرا نام نہ آئے گا

    ہونٹوں پہ بھولے سے کبھی بھی تیرا نام نہ آئے گا میری رسوائی کا جا تجھ پر الزام نہ آئے گا اب کے کھلے ہی رہ جائیں گے آشاؤں کے دروازے پتھرا جائیں گی سب آنکھیں لیکن شیام نہ آئے گا ہو جائے گا خشک اچانک اک دن پیڑ تعلق کا خالص خون کا آخری قطرہ بھی کچھ کام نہ آئے گا شوق سے تم الزام تراشو ...

    مزید پڑھیے

    حسن ہے اس بار پورے جلوہ سامانی کے ساتھ

    حسن ہے اس بار پورے جلوہ سامانی کے ساتھ آئنے ٹوٹے ہیں پہلی بار حیرانی کے ساتھ اور ہی چہرہ نکالیں سرخیاں دھانی کے ساتھ اب کے ساون کاش برسے آگ بھی پانی کے ساتھ کب مرے سر کی ضرورت پیش آ جائے اسے کوچہ کوچہ پھر رہا ہوں دشمن جانی کے ساتھ رات آتی ہے تو تنہائی لپٹ کر جانے کیوں رو دیا ...

    مزید پڑھیے

    تلاش پھر کوئی کھوئی سی رہ گزار میں تھی

    تلاش پھر کوئی کھوئی سی رہ گزار میں تھی پھر آج اک شام صبح کے انتظار میں تھی وجود گرچہ ہواؤں کی زد پہ تھا ہمارا چراغ کی لو ہتھیلیوں کے حصار میں تھی نگاہ کے سارے اختیارات سلب سے تھے کشش نہ جانے وہ کون سی خار زار میں تھی امید سے تھیں یہاں وہاں تک تمام آنکھیں طلب برہنہ وصال کے کار ...

    مزید پڑھیے

    ہر سو موسم نور پہ تھا جب میلادوں ست سنگوں کا

    ہر سو موسم نور پہ تھا جب میلادوں ست سنگوں کا تھا جھنکار پہ راگ بسنتی صوفی سنت ملنگوں کا گھر گھر نچنے ناچ رہے ہیں مہا نگر کے تالوں پر گاؤں کے بارہ ماسوں میں دم ٹوٹ گیا مردنگوں کا میرے عہد کے بچے ہندو مسلم سکھ عیسائی ہیں امن کی بگیا میں ہے اب تو ہر پل موسم دنگوں کا کیا خوش مرضی ...

    مزید پڑھیے

    کہو فرار سے باندھے نہ پاؤں میں آنکھیں

    کہو فرار سے باندھے نہ پاؤں میں آنکھیں قدم قدم پہ بچھی ہیں دشاؤں میں آنکھیں نہ جانے کون سی ہوگی تلاش کی منزل بھٹک رہی ہیں ابھی تک خلاؤں میں آنکھیں کراہ اٹھی تھی سرگوشی کوئی چپکے سے لگی تھی ٹھیس کہ اگ آئیں پاؤں میں آنکھیں پرندے اب نہیں منظر گزارنے والے ہزار خواب سجائیں فضاؤں ...

    مزید پڑھیے

    صحن روشن نہ اک مکاں روشن

    صحن روشن نہ اک مکاں روشن چہرہ چہرہ اداسیاں روشن ذہن در ذہن وصل بے زاری جسم در جسم سردیاں روشن گاؤں در گاؤں تیرگی کے پڑاؤ شہر در شہر بجلیاں روشن بھر سفر دھوپ کفر کرتی ہوئی نا طرف سر پہ سائباں روشن سوچتے رہ گئے نظر والے کر گئے یار جسم و جاں روشن کتنے عالم حیات سے چھوٹے تب ہوا ...

    مزید پڑھیے

    انتہائی بھیڑ میں اک ابتدا ہے آخری

    انتہائی بھیڑ میں اک ابتدا ہے آخری پھر نہ ہوگا بعد میں یہ سانحہ ہے آخری اپنا اپنا چہرہ لے کر آ گئے ہیں سب کے سب وقت کے ہاتھوں میں جبکہ آئنہ ہے آخری دیکھیے بنتا ہے کون اس کی ملامت کا ہدف تیر اس ظالم کے ترکش میں بچا ہے آخری ایک مٹھی آسماں بس ایک مٹھی آسماں اس پرندے کی یہی بس التجا ...

    مزید پڑھیے

    رائیگاں جاتی نہ کیوں پھر ہمہ کوشی اس کی

    رائیگاں جاتی نہ کیوں پھر ہمہ کوشی اس کی تھی غرض کار بہت حلقہ بگوشی اس کی ہر طرف اس نے دیا جسم نمائی کو رواج خوب مشہور ہوئی سایہ فروشی اس کی بر سر عام مری چپ کی جو تشہیر ہوئی مشتعل ہو اٹھی آواز بگوشی اس کی منعکس ہو نہ سکی کوئی بھی صورت اس سے یعنی بیکار گئی آئنہ پوشی اس کی آ گیا ...

    مزید پڑھیے

    اندر باہر اوپر نیچے خواب ہی خواب

    اندر باہر اوپر نیچے خواب ہی خواب دائیں بائیں آگے پیچھے خواب ہی خواب خوشبو شبنم رنگ کی دنیا ایک فریب غنچے گل بوٹے باغیچے خواب ہی خواب آنکھیں چہرے چاند ستارے رات ہی رات دروازے دیوار دریچے خواب ہی خواب حسرت ٹہنی ٹہنی نیند میں ڈوبی تھی بکھرے تھے پیڑوں کے پیچھے خواب ہی خواب کاش ...

    مزید پڑھیے

    سب سے جدا اور سب سے الگ میری تیری آواز

    سب سے جدا اور سب سے الگ میری تیری آواز تو پر شور سمندر میں سوکھی جلتی آواز کوئی بھولا بھٹکا بادل کہہ بیٹھے لبیک آخر کب تک خالی جائے مٹی کی آواز آدھے رستے ہی میں سورج کر دیتا ہے خاک جب بھی کبھی آکاش کو دیتی ہے دھرتی آواز ذہنوں میں جب سناٹوں کا برپا ہو کہرام پھر کیسے سن پائے کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4