خوشبوؤں کا شہر اجڑا گھر سے بے گھر ہو گئے
خوشبوؤں کا شہر اجڑا گھر سے بے گھر ہو گئے
بادشاہت ہاتھ سے نکلی گداگر ہو گئے
تیرگی میں جا پڑے روشن تقاضے صبح کے
جھوٹ سچے تھے جبھی لوگوں کو ازبر ہو گئے
جتنے عرصے ہم رہے خود سر انا کے زیر پا
ذرے سورج بن گئے قطرے سمندر ہو گئے
تھا قصور اپنا یہی بس آئنہ شانے پہ تھا
چہرے کیا ابھرے سبھی آپے سے باہر ہو گئے
جانے کس کی بد دعا پرویزؔ رحمانی لگی
دیکھتے ہی دیکھتے احباب پتھر ہو گئے