Parwez Rahmani

پرویز رحمانی

پرویز رحمانی کی غزل

    تھے زمیں پر نہ آسمان میں تھے

    تھے زمیں پر نہ آسمان میں تھے ہم دعاؤں کے سائبان میں تھے گزرے لمحات سے چلو پوچھیں ہم کہاں اور کس جہان میں تھے کس طرح کرتے ہم غزل رانی اک طوالت بھری تکان میں تھے چاہتے تم کہیں سے پڑھ لیتے ہم تو ہر ایک داستان میں تھے کرتے کردار اپنی مرضی کے پیار کے قصے ہر زبان میں تھے عشق ...

    مزید پڑھیے

    ظاہر کو آج ٹالتا ہوں

    ظاہر کو آج ٹالتا ہوں باطن ترا کھنگالتا ہوں اے آسمان سرخ رو ہو اپنا لہو اچھالتا ہوں آئینہ دار تو ہی بن جا میں خود پہ خاک ڈالتا ہوں آ دیکھ زندگی کہ کیسے سائے میں جسم ڈھالتا ہوں ہوتا ہے سرد جب اندھیرا سورج ترا نکالتا ہوں تو اپنے آستیں سے نالاں اک میں کہ خود کو پالتا ہوں پرویزؔ ...

    مزید پڑھیے

    سب کو خلاف مت کر

    سب کو خلاف مت کر آئینہ صاف مت کر قد یوں بڑا نہ ہوگا لاف و گزاف مت کر رہنے دے جو ہے جیسا کوئی خلاف مت کر جو کہہ رہا ہے سن لے بس اعتراف مت کر جب جانتا نہیں کچھ تو اختلاف مت کر سچائی سامنے ہے اب انحراف مت کر سب ہو چکا ہے ثابت اب لام قاف مت کر مت بوجھ ذہن پر رکھ دل کے خلاف مت کر

    مزید پڑھیے

    اک دوجے کے باسی ان کو اور بسیرا کیا معلوم

    اک دوجے کے باسی ان کو اور بسیرا کیا معلوم اپنے پن کے باشندوں کو میرا تیرا کیا معلوم سورج بولے تو سو جائیں سورج بولے تو جاگیں کیا جانیں یہ دیا جلانا ان کو اندھیرا کیا معلوم خواب کا جھوٹ جیون سچ میں تل تل مرنا جن کا بھاگ یہ راتوں کے قیدی ان کو سانجھ سویرا کیا معلوم بستی سے باہر ...

    مزید پڑھیے

    کر گئی گل تاب رنگوں کی فراوانی ہمیں

    کر گئی گل تاب رنگوں کی فراوانی ہمیں نور سا رنگ دے گیا شوق غزل رانی ہمیں دامن دل بے ضمیری سے بچا پائے نہ ہم لگ گیا آخر کو شہر غیر کا پانی ہمیں مفت میں بیٹھے بٹھائے ساری دنیا دیکھ لی مل نہ پائی تھی کبھی ایسی تن آسانی ہمیں خود پسندی دیکھی تیری خود سری بھی دیکھ لی اور کیا دکھلائے گا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4