جب تک تعلقات ہمارے بنے رہے
جب تک تعلقات ہمارے بنے رہے
ہم ایک دوسرے کے سہارے بنے رہے
جب تک کھلے ہوئے تھے دلوں میں غرض کے پھول
تم بھی ہمارے ہم بھی تمہارے بنے رہے
خواہش کے اور چھور سے واقف تھے ہم مگر
دریا کے آر پار کنارے بنے رہے
ارمان ہانپتے رہے دو کھڑکیوں کے بیچ
آنکھوں کے درمیان اشارے بنے رہے
خوشبو بکھیرتی رہی بستر پہ چاندنی
جذبات ساری رات شرارے بنے رہے
پرویزؔ جب تلک تھا محبت پہ اختیار
ہم بھی تمہارے تم بھی ہمارے بنے رہے